خط تو بھیجاہے مگر صفحے کو سادہ رکھا
جانے اس شخص نے کیا دل میں ارادہ رکھا
لوگ آتے رہے اور چھوڑ کے جاتے بھی رہے
ہم نے ہر حال میں اس دل کو کشادہ رکھا
مجھ کو پابند کیا اور وہ آزاد رہا
وقت ِ رخصت ، جو پلٹنے کا بھی وعدہ رکھا
اس لیے مات پہ ہوتی ہی رہی مات مجھے
ہوش کم اور جنوں تھوڑا زیادہ رکھا
ہم نے شطرنج بھی کھیلی ہے محبت کی طرح
شاہ کو مات نہ ہوجائے ، پیادہ رکھا
دلشاد نسیم
No comments:
Post a Comment