میرے رشکِ قمر !! تو نے پہلی نظر
جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی
آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں
چاندنی مسکرائی مزا آگیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا
تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا
بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے
مئے کدے پہ برسنے لگیں مستیاں
جب گھٹا گھر کے چھائی مزا آ گیا
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے
اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے
دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا
شیخ صاحب کا اِیماں بہک ہی گیا
دیکھ کر حُسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے
لُٹ گئی پارسائی مزا آ گیا
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر
سُرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ
ایسے گردن جُھکائی مزا آ گیا
اے فنا شکر ہے آج بعدِ فنا
اُس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرُو
اپنے ہاتھوں سے اُس نے مری قبر پہ
چادرِ گُل چڑھائی مزا آ گیا
No comments:
Post a Comment