اختر شیرانی/سراج لکھنوی
دو غزلہ_اختر شیرانی
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں
اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں
ظلمت بدوش ہے مری دنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلے نہ چرائیں تو کیا کریں
شب بھر تو ان کی یاد میں تارے گنا کئے
تارے سے دن کو بھی نظر آئیں تو کیا کریں
عہد طرب کی یاد میں رویا کئے بہت
اب مسکرا کے بھول نہ جائیں تو کیا کریں
اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں
وعدے کے اعتبار میں تسکین دل تو ہے
اب پھر وہی فریب نہ کھائیں تو کیا کریں
ترک وفا بھی جرم محبت سہی مگر
ملنے لگیں وفا کی سزائیں تو کیا کریں
***************************
ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں
بے کار جائیں اپنی دعائیں تو کیا کریں
اک زہرہ وش ہے آنکھ کے پردوں میں جلوہ گر
نظروں میں آسماں نہ سمائیں تو کیا کریں
مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب
لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں
ہم لاکھ قسمیں کھائیں نہ ملنے کی سب غلط
وہ دور ہی سے دل کو لبھائیں تو کیا کریں
بد قسمتوں کا یاد نہ کرنے پہ ہے یہ حال
اللہ اگر وہ یاد ہی آئیں تو کیا کریں
ناصح ہماری توبہ میں کچھ شک نہیں مگر
شانہ ہلائیں آ کے گھٹائیں تو کیا کریں
مے خانہ دور راستہ تاریک ہم مریض
منہ پھیر دیں ادھر جو ہوائیں تو کیا کریں
راتوں کے دل میں یاد بسائیں کسی کی ہم
اختر حرم میں وہ نہ بلائیں تو کیا کریں
***************************
یہ جبر زندگی نہ اٹھائیں تو کیا کریں
تڑپیں مگر تڑپنے نہ پائیں تو کیا کریں
اب اپنی محفلوں سے بھی آتی ہے بوئے غیر
جائیں تو کیا کریں جو نہ جائیں تو کیا کریں
قسمت میں اپنی صبح کی اب روشنی کہاں
اشکوں کے بھی دئیے نہ جلائیں تو کیا کریں
کتنی ہی راتیں جاگ کے آنکھوں میں کاٹ دیں
بیداریاں بھی خواب دکھائیں تو کیا کریں
وہ رنگ و بو کے قافلے رستے ہوں جن کے بند
دیوار باغ پھاند نہ پائیں تو کیا کریں
کانٹوں کے دن بھی پھر گئے راس آ گئی بہار
چھینی گئیں گلوں کی قبائیں تو کیا کریں
گرتا ہے ہر پلک کے جھپکنے پہ اک حجاب
آنکھوں کو انتظار سکھائیں تو کیا کریں
ہر روشنی سراج چراغ حرم نہیں
اس سطح پر نگاہ کو لائیں تو کیا کریں
سراج لکھنوی
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں
اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں
ظلمت بدوش ہے مری دنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلے نہ چرائیں تو کیا کریں
شب بھر تو ان کی یاد میں تارے گنا کئے
تارے سے دن کو بھی نظر آئیں تو کیا کریں
عہد طرب کی یاد میں رویا کئے بہت
اب مسکرا کے بھول نہ جائیں تو کیا کریں
اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں
وعدے کے اعتبار میں تسکین دل تو ہے
اب پھر وہی فریب نہ کھائیں تو کیا کریں
ترک وفا بھی جرم محبت سہی مگر
ملنے لگیں وفا کی سزائیں تو کیا کریں
***************************
ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں
بے کار جائیں اپنی دعائیں تو کیا کریں
اک زہرہ وش ہے آنکھ کے پردوں میں جلوہ گر
نظروں میں آسماں نہ سمائیں تو کیا کریں
مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب
لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں
ہم لاکھ قسمیں کھائیں نہ ملنے کی سب غلط
وہ دور ہی سے دل کو لبھائیں تو کیا کریں
بد قسمتوں کا یاد نہ کرنے پہ ہے یہ حال
اللہ اگر وہ یاد ہی آئیں تو کیا کریں
ناصح ہماری توبہ میں کچھ شک نہیں مگر
شانہ ہلائیں آ کے گھٹائیں تو کیا کریں
مے خانہ دور راستہ تاریک ہم مریض
منہ پھیر دیں ادھر جو ہوائیں تو کیا کریں
راتوں کے دل میں یاد بسائیں کسی کی ہم
اختر حرم میں وہ نہ بلائیں تو کیا کریں
***************************
یہ جبر زندگی نہ اٹھائیں تو کیا کریں
تڑپیں مگر تڑپنے نہ پائیں تو کیا کریں
اب اپنی محفلوں سے بھی آتی ہے بوئے غیر
جائیں تو کیا کریں جو نہ جائیں تو کیا کریں
قسمت میں اپنی صبح کی اب روشنی کہاں
اشکوں کے بھی دئیے نہ جلائیں تو کیا کریں
کتنی ہی راتیں جاگ کے آنکھوں میں کاٹ دیں
بیداریاں بھی خواب دکھائیں تو کیا کریں
وہ رنگ و بو کے قافلے رستے ہوں جن کے بند
دیوار باغ پھاند نہ پائیں تو کیا کریں
کانٹوں کے دن بھی پھر گئے راس آ گئی بہار
چھینی گئیں گلوں کی قبائیں تو کیا کریں
گرتا ہے ہر پلک کے جھپکنے پہ اک حجاب
آنکھوں کو انتظار سکھائیں تو کیا کریں
ہر روشنی سراج چراغ حرم نہیں
اس سطح پر نگاہ کو لائیں تو کیا کریں
سراج لکھنوی
No comments:
Post a Comment