امیر مینائ
وصل ھو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اُٹھا رکھا ہے
مُحتسِب پُوچھ نہ تُو شیشے میں کیا رکھا ہے
پارسائی کا لہُو اِس میں بھرا رکھا ہے
کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نِکلے
میرے جوبن کو لڑکپن نے چُرا رکھا ہے
اِس تغافُل میں بھی سرگرمِ سِتم وہ آنکھیں
آپ تو سوتے ہیں فِتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمی زاد ہیں دُنیا کے حسیں لیکن امیر
یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
***********************
فارغ بخاری
تیری خاطِر یہ فُسُوں ہم نے جگا رکھا ہے
ورنہ آرائش افکار میں کیا رکھا ہے
ہے تِرا عکس ہی آئینہء دِل کی زینت
ایک تصویر سے البم کو سجا رکھا ہے
برگِ صد چاک کا پردہ ہے شگُفتہ گُل سے
قہقہوں سے کئی زخموں کو چُھپا رکھا ہے
اب نہ بھٹکیں گے مُسافر نئی نسلوں کے کبھی
ہم نے راہوں میں لہُو اپنا جلا رکھا ہے
ہم سے اِنساں کی خجالت نہیں دیکھی جاتی
کم سوادوں کا بھرم ہم نے روا رکھا ہے
کِس قیامت کا ہے دیدار تِرا وعدہ شِکن
دِلِ بے تاب نے اِک حشر اُٹھا رکھا ہے
کوئی مُشکِل نہیں پہچان ہماری فارغ
اپنی خوشبو کا سفر ہم نے جُدا رکھا ہے
No comments:
Post a Comment