سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے
صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا
’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘
سب سوچتے رہے کہ
’’آخر عورت کیا چاہتی ہے؟
تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟
شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ
’’عورت کو محبت چاہیے
نرم و نازک گرم و گداز
جسم سے ماورا
جنس سے آزاد
مرد جسم میں کے جنگل میں
بھٹکتا ہوا ایک بھوکا درندہ ہے
عورت روح کے چمن میں
اڑتی ہوئی تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے
مرد کے لیے محبت بھوک
اور عورت کے لیے پیار
ایک پیاس ہے!
صرف لطیف جانتا تھا
عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے
اشکوں جیسا سمندر
جو نمکین بھی ہے
اور
حسین بھی ہے
جس میں تلاطم ہے
جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں
صرف اور صرف الم ہے
صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا
’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘
سب سوچتے رہے کہ
’’آخر عورت کیا چاہتی ہے؟
تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟
شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ
’’عورت کو محبت چاہیے
نرم و نازک گرم و گداز
جسم سے ماورا
جنس سے آزاد
مرد جسم میں کے جنگل میں
بھٹکتا ہوا ایک بھوکا درندہ ہے
عورت روح کے چمن میں
اڑتی ہوئی تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے
مرد کے لیے محبت بھوک
اور عورت کے لیے پیار
ایک پیاس ہے!
صرف لطیف جانتا تھا
عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے
اشکوں جیسا سمندر
جو نمکین بھی ہے
اور
حسین بھی ہے
جس میں تلاطم ہے
جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں
صرف اور صرف الم ہے
No comments:
Post a Comment