”دیوانِ آتش“ سے انتخاب
شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہرباں تھا
مبارک شبِ قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قِراں تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبحِ جنت کا جس پر گماں تھا
مشاہد جمالِ پری کی تھی آنکھیں
مکانِ وصال اک طلمسی مکاں تھا
حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی
کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیاں تھا
کیا تھا اسے بوسہ بازی نے پیدا
کمر کی طرح سے جو غائب دہاں تھا
بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
شاعر : خواجہ حیدر علی آتش
کتاب دیوانِ آتش
شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہرباں تھا
مبارک شبِ قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قِراں تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبحِ جنت کا جس پر گماں تھا
مشاہد جمالِ پری کی تھی آنکھیں
مکانِ وصال اک طلمسی مکاں تھا
حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی
کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیاں تھا
کیا تھا اسے بوسہ بازی نے پیدا
کمر کی طرح سے جو غائب دہاں تھا
بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
شاعر : خواجہ حیدر علی آتش
کتاب دیوانِ آتش
No comments:
Post a Comment