فنا بلند شہری
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا
چاند کے سائے میں اے مرے ساقیا تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا
چاند کے سائے میں اے مرے ساقیا تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا بزم رنداں میں ساگر کھنکنے لگا
میکدے پہ برسنے لگیں مستیاں جب گھٹا گھر کے آئی مزہ آ گیا
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا
شیخ صاحب کا ایمان بک ہی گیا دیکھ کر حسن ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا
اے فنا شکر ہے آج باد فنا اس نے رکھ لی مرے پیار کہ آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے مری قبر پہ چادر گل چڑھائی مزہ آ گیا
******************************************
الویرا علی
امتحان ِ محبت تھا لازم بہت ، میں نے تھوڑی لگا ئی مزا آگیا
میں جو کھلنے لگی تھی زرا غیر پر، اُس نے آنکھیں دکھا ئی مزا آگیا
🌹
اُس نے چلنے کا گھر کو اشارا کیا , میں نے آنچل سنبھالا سو چُپ اوڑھ لی
ہوش میں ہوش تھا ، ہوش مدہوش تھا , اُس کو کس نے پلا ئی مزا آگیا
🌹
عشق کیسی کتھا ، عشق کیسی رضا ، عشق کیسی بلا میں سمجھ نہ سکی
دم نکلنے لگا ، دل مچلنے لگا ، میں سنبھل ہی نہ پا ئی مزا آگیا
🌹
میں زلیخا نہیں جو کٹے اُنگلیا ں ، وہ مسیحا نہیں جو زخم کھینچ لے
وہ بڑے خوب اپنی روش پر چلے ، میں فقط مسکرائی مزا آگیا
🌹
کچھ تو حُسن ِ تمنا بھی غازہ ہوا فطر تا" روپ رنگ جونہی تازہ ہوا
فصل ِ گُل کھِل گئے ، ٹوٹے دل مل گئے کس نے شبنم جگا ئی مزا آگیا
🌹
بارشوں کا مہنیہ ھے ٹھنڈی ہوا ,جا دسمبر مرا تجھ سے کیا واسطہ
جاں تڑپتی ، ٹھٹھرتی ، سسکتی رہی ، تم نے بھی نہ بچائی مزا آگیا
🌹
کچھ وٹا منز کی تھی کمی جسم میں ایسا ہوتا ھے اکثر مگر رنج میں !!
چہرہ بے نور بھی ، وہ بہت دور بھی ، کچھ نہں کا م آئی مزا آگیا
🌹
اپنی بھی اک صدا سےمیں غمگین تھی چوٹ بھی جو مکمل ہی سنگین تھی
ساحلوں پہ سمندر ٹہلنے لگا میں زرا ڈگمگا ئی مزا آگیا
🌹
مجھ کو کہنا پڑے گا یہ الویرا سے خفگیاں کیوں ہیں لا لہ و گُل پنہا سے
روح تلک یوں تماشہ تماشہ ھے کیوں کاہے دل کی نبھائی مزا آ گیا
میکدے پہ برسنے لگیں مستیاں جب گھٹا گھر کے آئی مزہ آ گیا
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا
شیخ صاحب کا ایمان بک ہی گیا دیکھ کر حسن ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا
اے فنا شکر ہے آج باد فنا اس نے رکھ لی مرے پیار کہ آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے مری قبر پہ چادر گل چڑھائی مزہ آ گیا
******************************************
الویرا علی
امتحان ِ محبت تھا لازم بہت ، میں نے تھوڑی لگا ئی مزا آگیا
میں جو کھلنے لگی تھی زرا غیر پر، اُس نے آنکھیں دکھا ئی مزا آگیا
🌹
اُس نے چلنے کا گھر کو اشارا کیا , میں نے آنچل سنبھالا سو چُپ اوڑھ لی
ہوش میں ہوش تھا ، ہوش مدہوش تھا , اُس کو کس نے پلا ئی مزا آگیا
🌹
عشق کیسی کتھا ، عشق کیسی رضا ، عشق کیسی بلا میں سمجھ نہ سکی
دم نکلنے لگا ، دل مچلنے لگا ، میں سنبھل ہی نہ پا ئی مزا آگیا
🌹
میں زلیخا نہیں جو کٹے اُنگلیا ں ، وہ مسیحا نہیں جو زخم کھینچ لے
وہ بڑے خوب اپنی روش پر چلے ، میں فقط مسکرائی مزا آگیا
🌹
کچھ تو حُسن ِ تمنا بھی غازہ ہوا فطر تا" روپ رنگ جونہی تازہ ہوا
فصل ِ گُل کھِل گئے ، ٹوٹے دل مل گئے کس نے شبنم جگا ئی مزا آگیا
🌹
بارشوں کا مہنیہ ھے ٹھنڈی ہوا ,جا دسمبر مرا تجھ سے کیا واسطہ
جاں تڑپتی ، ٹھٹھرتی ، سسکتی رہی ، تم نے بھی نہ بچائی مزا آگیا
🌹
کچھ وٹا منز کی تھی کمی جسم میں ایسا ہوتا ھے اکثر مگر رنج میں !!
چہرہ بے نور بھی ، وہ بہت دور بھی ، کچھ نہں کا م آئی مزا آگیا
🌹
اپنی بھی اک صدا سےمیں غمگین تھی چوٹ بھی جو مکمل ہی سنگین تھی
ساحلوں پہ سمندر ٹہلنے لگا میں زرا ڈگمگا ئی مزا آگیا
🌹
مجھ کو کہنا پڑے گا یہ الویرا سے خفگیاں کیوں ہیں لا لہ و گُل پنہا سے
روح تلک یوں تماشہ تماشہ ھے کیوں کاہے دل کی نبھائی مزا آ گیا
No comments:
Post a Comment