عمر اس راہ پر فنا کی ہے
جس کے ہر موڑ نے دغا کی ہے
جس کے ہر موڑ نے دغا کی ہے
یاد کر کر کے تلخ باتوں کو
زندگی خود سے بے مزا کی ہے
زندگی خود سے بے مزا کی ہے
ایک تو لوگ نا قدر سارے
اور اک ہم کہ بس وفا کی ہے
پوچھنا حال دنیا داری ہے
کس نے کس کی یہاں دوا کی ہے
اور تو اور خود سے نالاں ہوں
ہر تعلق میں ہی خطا کی ہے
یہ بھی لکھا گیا قصور مرا
کہ محبت میں انتہا کی ہے
جاں قفس میں ہے اپنی مرضی سے
قید سے کب کی یہ رہا کی ہے
مجھ سے ملنے کو تم نہ آیا کرو
آئینے تک نے التجا کی ہے
کیا دعا کرتے جب یقیں ہی نہیں
یہ دعا کی یا بد دعا کی ہے
جس سے کرنا کنارہ تھا ابرک
تم نے ہر شے وہ آشنا کی ہے
اتباف ابرک
اور اک ہم کہ بس وفا کی ہے
پوچھنا حال دنیا داری ہے
کس نے کس کی یہاں دوا کی ہے
اور تو اور خود سے نالاں ہوں
ہر تعلق میں ہی خطا کی ہے
یہ بھی لکھا گیا قصور مرا
کہ محبت میں انتہا کی ہے
جاں قفس میں ہے اپنی مرضی سے
قید سے کب کی یہ رہا کی ہے
مجھ سے ملنے کو تم نہ آیا کرو
آئینے تک نے التجا کی ہے
کیا دعا کرتے جب یقیں ہی نہیں
یہ دعا کی یا بد دعا کی ہے
جس سے کرنا کنارہ تھا ابرک
تم نے ہر شے وہ آشنا کی ہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment