بعد مدت کے کتابوں سے نکل آئے ہو
سوکھے خوابیدہ گلابوں سے نکل آئے ہو
سوکھے خوابیدہ گلابوں سے نکل آئے ہو
یونہی سامان پرانے پہ نظر جا ٹھہری
پھر سے تم بند لفافوں سے نکل آئے ہو
پھر سے تم بند لفافوں سے نکل آئے ہو
کیا یہ زنجیر، یہ زندان، کڑے پہرے کریں
روشنی بن کے کواڑوں سے نکل آئے ہو
تم جو ہر آن یونہی رہتے ہو ہنستے بستے
کیا محبت کے عتابوں سے نکل آئے ہو
کس قدر سادگی ہے سانس بھی تم لیتے ہو
اور سمجھتے ہو عذابوں سے نکل آئے ہو
اب طلب ہے نہ تجسس نہ ہے وہ عہدِ وفا
تم غلط سوچ، ارادوں سے نکل آئے ہو
وقت گزرا نہیں لوٹے گا سو بیکار ہی تم
بدگمانی کی پناہوں سے نکل آئے ہو
ایک جو چپ سی لگی ہے تمہیں تازہ ابرک
تھک گئے ہو یا سوالوں سے نکل آئے ہو
اتباف ابرک
روشنی بن کے کواڑوں سے نکل آئے ہو
تم جو ہر آن یونہی رہتے ہو ہنستے بستے
کیا محبت کے عتابوں سے نکل آئے ہو
کس قدر سادگی ہے سانس بھی تم لیتے ہو
اور سمجھتے ہو عذابوں سے نکل آئے ہو
اب طلب ہے نہ تجسس نہ ہے وہ عہدِ وفا
تم غلط سوچ، ارادوں سے نکل آئے ہو
وقت گزرا نہیں لوٹے گا سو بیکار ہی تم
بدگمانی کی پناہوں سے نکل آئے ہو
ایک جو چپ سی لگی ہے تمہیں تازہ ابرک
تھک گئے ہو یا سوالوں سے نکل آئے ہو
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment