Ye Na Thi Humari Qismat Keh Wisal e Yaar Hota Agar Aur Jeete Rehte Yahi Intezar Hota






یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا 


مرزا غالب

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا
کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا
ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا
یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا
گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا
تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا
داغؔ دہلوی
 
مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا
ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
مرے اتّقا کا باعث، تو ہے میری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا
میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا
نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا
دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا
نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا
جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا
میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا
مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہوتا
امیر مینائی

 

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai