Jis Waqt Chaho Uth Ke Mere Dil Mein Aa Baso Chorho Takalfaat ! Ghar Ki Baat Hai



*27 فروری 1976ء*
*دورِ حاضر کے معروف شاعر، کالم نگار اور اینکر پرسن رحمان فارسؔ صاحب کا یومِ ولادت۔*
رحمان فارسؔ
صاحب  کا شمار پاکستان کے مقبول ترین اردو شعراء میں ہوتا ہے۔ 27 فروری 1976ء لاہور میں پیدا ہوئے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک ادبی پروگرام کے اینکر پرسن کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ انگریزی میں کالم نگاری بھی کرتے ہیں۔ "عشق بخیر " کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے جسے نئی نسل میں بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ رحمان فارس کی شاعری عوام الناس کی بہت بڑی اکثریت کے دل اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے اور عوام میں ان کی مقبولیت کا یہی راز ہے۔
 رحمان فارس روزگار کے اعتبار سے سول سروس آف پاکستان سے مُنسلک ہیں۔ آج کل ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریوینیو اسلام آباد تعینات ہیں۔ شاعری کا اولین مجموعہ ”عشق بخیر“ کے نام سے اشاعت پذیر ھے۔ مُشاعروں کے حوالے سے دُنیا بھر میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ ابھی تک امریکہ، یورپ کے متعدد ممالک، مشرقِ وُسطٰی کے بیشتر ممالک، ہندوستان، بنگلہ دیش، چین، تُرکی اور آسٹریلیا کے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کرکے سامعین و حاضرین کی کثیر تعداد سے دادِ سُخن وصول کرچکے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ ادبی دورے کا سفرنامہ زیرِ طبع ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ادبی پروگرامز کے اینکرپرسن ہیں۔ مؤقر انگریزی جرائد میں متعدد کالمز لکھ چُکے ہیں۔

**************************
خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں
کون پھرتا ہے در بدر مجھ میں
مجھ کو خود میں جگہ نہیں ملتی
تو ہے موجود اس قدر مجھ میں
موسم گریہ ایک گزارش ہے
غم کے پکنے تلک ٹھہر مجھ میں
بے گھری اب مرا مقدر ہے
عشق نے کر لیا ہے گھر مجھ میں
آپ کا دھیان خون کے مانند
دوڑتا ہے ادھر ادھر مجھ میں
حوصلہ ہو تو بات بن جائے
حوصلہ ہی نہیں مگر مجھ میں
***********************

میں کار آمد ہوں یا بے کار ہوں میں
مگر اے یار تیرا یار ہوں میں
جو دیکھا ہے کسی کو مت بتانا
علاقے بھر میں عزت دار ہوں میں
خود اپنی ذات کے سرمائے میں بھی
صفر فیصد کا حصے دار ہوں میں
اور اب کیوں بین کرتے آ گئے ہوں
کہا تھا نا بہت بیمار ہوں میں
مری تو ساری دنیا بس تمہی ہو
غلط کیا ہے جو دنیا دار ہوں میں
کہانی میں جو ہوتا ہی نہیں ہے
کہانی کا وہی کردار ہوں میں
یہ طے کرتا ہے دستک دینے والا
کہاں در ہوں کہاں دیوار ہوں میں
کوئی سمجھائے میرے دشمنوں کو
ذرا سی دوستی کی مار ہوں میں
مجھے پتھر سمجھ کر پیش مت آ
ذرا سا رحم کر جاں دار ہوں میں
بس اتنا سوچ کر کیجے کوئی حکم
بڑا منہ زور خدمت گار ہوں میں
کوئی شک ہے تو بے شک آزما لے
ترا ہونے کا دعوے دار ہوں میں
اگر ہر حال میں خوش رہنا فن ہے
تو پھر سب سے بڑا فن کار ہوں میں
زمانہ تو مجھے کہتا ہے فارسؔ
مگر فارسؔ کا پردہ دار ہوں میں
انہیں کھلنا سکھاتا ہوں میں فارسؔ
گلابوں کا سہولت کار ہوں میں
******************************
جب خزاں آئے تو پتّے نہ ثَمَر بچتا ہے
خالی جھولی لیے ویران شجَر بچتا ہے
نُکتہ چِیں ! شوق سے دن رات مِرے عَیب نکال
کیونکہ جب عَیب نکل جائیں، ہنَر بچتا ہے
سارے ڈر بس اِسی ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار
یار کھو جائے تو پھر کونسا ڈر بچتا ہے
روز پتھراؤ بہت کرتے ہیں دُنیا والے
روز مَر مَر کے مِرا خواب نگر بچتا ہے
غم وہ رستہ ہے کہ شب بھر اِسے طَے کرنے کے بعد
صُبحدم دیکھیں تو اُتنا ہی سفر بچتا ہے
بس یہی سوچ کے آیا ہوں تری چوکھٹ پر
دربدر ہونے کے بعد اک یہی در بچتا ہے
اب مرے عیب زدہ شہر کے شر سے، صاحب
شاذ و نادر ہی کوئی اہلِ ہنر بچتا ہے
عشق وہ علمِ ریاضی ہے کہ جس میں فارس
دو سے جب ایک نکالیں تو صفَر بچتا ہے
**********************************
نظروں سے لوگ گزریں گے لیکن خدا کرے
دل سے ترے علاوہ  کسی کا گزر نہ ہو
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
گر دیکھنے کی بات ہے تو پورے دل سے دیکھ
ان دھوکے باز آنکھوں کی بینائی پر نہ جا
سورج کی طرح  گرم ہے کم بخت اس کا حسن
بس سرسری ہی دیکھو اسے غور سے نہیں
***********************************

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
*********************************

کیوں ترے ساتھ رہیں عمر بسر ہونے تک
ہم نہ دیکھیں گے عمارت کو کھنڈر ہونے تک
تم تو دروازہ کھلا دیکھ کے در آئے ہو
تم نے دیکھا نہیں دیوار کو در ہونے تک
چپ رہیں آہ بھریں چیخ اٹھیں یا مر جائیں
کیا کریں بے خبرو تم کو خبر ہونے تک
ہم پہ کر دھیان ارے چاند کو تکنے والے
چاند کے پاس تو مہلت ہے سحر ہونے تک
حال مت پوچھیے کچھ باتیں بتانے کی نہیں
بس دعا کیجے دعاؤں میں اثر ہونے تک
سگ آوارہ کے مانند محبت کے فقیر
در بدر ہوتے رہے شہر بدر ہونے تک
آپ مالی ہیں نہ سورج ہیں نہ موسم پھر بھی
بیج کو دیکھتے رہیے گا ثمر ہونے تک
دشت خاموش میں دم سادھے پڑا رہتا ہے
پاؤں کا پہلا نشاں راہگزر ہونے تک
فانی ہونے سے نہ گھبرائیے فارسؔ کہ ہمیں
ان گنت مرتبہ مرنا ہے امر ہونے تک
*************************************
مُجھے کم عُمر سمجھ کے مِری تضحیک نہ کر
مَیں محبت میں کئی سال بڑا ہُوں تُجھ سے


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo