خالق ہے جذبِ شوق سے سرشار رقص میں
نُقطے کے ساتھ ساتھ ہے پَرکار رقص میں
دریا سے مل کے وجد میں آیا ہے سمندر
مستی ہے موج موج میں منجدھار رقص میں
پُوچھا کِسی سے اُس نے مرا حال دیکھکر
یہ شخص کون ہے سرِ بازار رقص میں
بجتی ہیں زور شور سے مندِر کی گھنٹیاں
آتش کدہ ہے رقص میں زنّار رقص میں
مُمکن میری صداؤں سے پہچان ہے تیری
پائل سے کہہ رہی ہے یہ جَھنکار رقص میں
کہنے کو بے نیاز ہے لیکن لطیف بھی
بُھولا نہیں ہے مُجھ کو میرا یار رقص میں
اب دیکھیں پاؤں بزمِ دمادم میں کب رُکیں
رقصاں ہوں میں جہاں وہیں دِلدار رقص میں
اک فخرِ کائنات کی آمد کے جشن میں
ارشد کئی قرن سے ہے سنسار رقص میں
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig
آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania
No comments:
Post a Comment