Khamosh Reh Ke Bhi Woh Mujh Se Baat Karta Hai



خموش رہ کے بھی وہ مُجھ سے بات کرتا ہے
میں اُسکا آئینہ ہوں مَجھ میں وہ سنوَرتا یے
ہے ایک کرب سا اس دھوپ کی سیاہی میں
کہ جیسے چاند کبھی گہن سے گُزرتا ہے
اُسے پھر اپنے تعارف کی کیا ضرورت ہے
وہ بن کے خُوشبو فِضاؤں میں جب بکھرتا ہے
مقام آتے ہیں پستی کے آدمی کے لئیے
جب اک قدم بھی بلندی سے وہ اُترتا ہے
یہ سلسلہ بھی محبت کا منزلوں تک ہے
کون اس کے بعد بھلا کس کو یاد کرتا ہے
مِلے گا مجھ سے کِسی اور کہکشاں میں کہیں
زمیں پہ آنے سے وہ میرا دوست ڈرتا ہے
یہ کون ہے میرے اندر ہے پر نہیں مُجھ سا
نہ زندہ رہتا ہے ارشد نہ مجھ میں مرتا ہے
مرزا ارشد علی بیگ
Mirza Arshad Ali Baig

آڈبان پینسلوانیا
Audubon Pennsylvania


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo