Kabhi Khaak Hoe In Qadmon Ki , Kabhi Dil Ko Bicha Kar Raqs Kia



کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا
اسے دیکھا خود کو بھول گئے لہر ا لہرا کر رقص کیا

ترے ہجر کی آگ میں جلتے تھے، ہم انگاروں پر چلتے تھے
کبھی تپتی ریت پہ ناچے ہم، کبھی خود کو جلا کر رقص کیا

کیا خوب مزہ تھا جینے میں، اک زخم چھپا تھا سینے میں
اس زخم کو کھرچا ناخن سے اور خون بہا کر رقص کیا

وہ جب نہ ملا محرابوں میں جسے ڈھونڈ رہے تھے خوابوں میں
سجدے سے اٹھایا سر اپنا اور ہاتھ اٹھا کر رقص کیا

کبھی تھمتی ہے، کبھی چڑھتی ہے، مری مستی گھٹتی، بڑھتی ہے
کبھی خاموشی، کبھی جھوم لیے کبھی شور مچا کر رقص کیا

سب بستی، جنگل ہو آئے مستی میں مقتل ہو آئے
وہاں جنگ لڑی خود سے ہم نے اور تیغ چلا کر رقص کیا

کہیں میرا خدا ناپید نہیں، کسی خاص جگہ کی قید نہیں
تسبیح پڑھی بت خانے میں، محراب میں آ کر رقص کیا
عارف امام


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo