پھول تو پھول یہاں خار بدل جاتے ہیں
خوف میں لوگوں کے کردار بدل جاتے ہیں
آپ اقرار بدلنے کا نہ روئیں رونا
وقت بدلے گا تو انکار بدل جاتے ہیں
دل لگاتے ہیں بڑی چاہ سے سب پہلے پہل
بعد میں لوگوں کے افکار بدل جاتے ہیں
ایک وہ دور تھا لوگوں کے بدلتے تھے دل
ایک یہ دور ہے دلدار بدل جاتے ہیں
ھم ہیں پتھریلے علاقے کی روایت کے امیں
لوگ وہ اور ہیں جو پیار بدل جاتے ہیں
No comments:
Post a Comment