خوشبو ھے ، دھنک ھے , چاندنی ھے
وہ ، اچھے دِنوں کی شاعری ھے
بھیگے ھوئے پھُول , حرف اُس کے
رِم جِھم کی زباں میں بولتی ھے
ھاتوں میں تھکن ھے , شام جیسی
لہجے میں سَحر کی تازگی ھے
یہ اُس کی صدا کا بھولپن ھے
یا شمعِ سخن پگھل رھی ھے؟
چہرے پہ حیا کا روپ جیسے
دریا میں شفق سی گھُل گئی ھے
آنکھوں میں گلاب کھِل رھے ھیں
کیا جانے وہ کب سے جاگتی ھے؟
برسا ھے خمار چاندنی کا
یا اُس کی جبیں دَمک اُٹھی ھے؟
کیا جانے وہ کیسے مُسکرائی؟
ھیرے سے کرن سی چھَن پڑی ھے۔
چہرے پہ بکھر کے زُلف اُس کی
سوُرج سے خراج مانگتی ھے
وہ محوِ خرام یوں ھے ، جیسے
اِک شاخ ھوا سے کھیلتی ھے
پَل بھر کو سَرک گیا جو آنچل
کلیوں کی طرح سمٹ گئی ھے
پرواہ ھی نہیں اُسے کسی کی
اپنے آپ سے وہ کتنی اجنبی ھے
آئینہ ھی دیکھتا ھے اُس کو
آئینہ کہاں وہ دیکھتی ھے؟
وہ غنچہ دَھن ”سکوت زادی“
کُھلنے پہ بھی کم ھی بولتی ھے
میں اُس کے بغیر کچھ نہ سوچوں
شاید وہ یہ بات سوچتی ھے
میں اُس کی انا کا بانکپن ھوں
وہ میری غزل کی دلکشی ھے
میں گرم رتوں کی لَو کا موسم
وہ سَرد رتوں کی سادگی ھے
اے خَلوتَیانِ مہ جبیناں !!
وہ آپ ھی اپنی آگہی ھے۔
اے مُشتریانِ حُسنِ عالَم
وہ دونوں جہاں سے قیمتی ھے
سو بار میں اُس سے کھو چکا ھُوں
ھنستی ھُوئی ، پھر سے مِل گئی ھے
میں اُس کی رفاقتوں پہ نازاں
محسن ، وہ غرورِ دوستی ھے
محسن نقوی
Comments
Post a Comment