Halaat Ke Qadmon Peh Qalandar Nahi Girta Toote Bhi Jo Tara Tou Zameen Par Nahi Girta
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
مشکوک نظر سے مجھے تکتی ہے یہ دھرتی
کیوں عرشِ معلّٰی مرے سر پر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا
حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
قتیل شفائی
Comments
Post a Comment