Basti Mein Kami Kis Cheez Ki Hai , Pathar Bhi Buhat , Sheeshay Bhi Buhat Is Mehr o Jafa Ki Nagri Se Dil Ke Hein Magar Reshty Bhi Buhat
بستی میں کمی کس چیز کی ہے، پتھر بھی بہت، شیشے بھی بہت
اس مہر و جفا کی نگری سے دل کے ہیں مگر رشتے بھی بہت
اب کون بتائے وحشت میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
ہاتھوں کا ہوا شہرہ بھی بہت، دامن نے سہے صدمے بھی بہت
اک جہد و طلب کے راہی پر بے راہ روی کی تہمت کیوں
سمتوں کا فسوں جب ٹوٹ گیا آوارہ ہوئے رستے بھی بہت
موسم کی ہوائیں گلشن میں جادو کا عمل کر جاتی ہیں
روداد بہاراں کیا کہیے، شبنم بھی بہت، شعلے بھی بہت
ہے یوں کہ طرب کے ساماں بھی ارزاں ہیں جنوں کی راہوں میں
تلوؤں کے لیے چھالے بھی بہت، چھالوں کے لیے کانٹے بھی بہت
کہتے ہیں جسے جینے کا ہنر آسان بھی ہے، دشوار بھی ہے
خوابوں سے ملی تسکیں بھی بہت، خوابوں کے اڑے پرزے بھی بہت
رسوائی کہ شہرت کچھ جانو حرمت کہ ملامت کچھ سمجھو
تاباں ہوں، کسی عنوان سہی، ہوتے ہیں مرے چرچے بھی بہت
غلام ربانی تاباں
Comments
Post a Comment