Sitam Sehty Hoe Har Din Nai Khuwahish Se Darta Hon Meri Aankhon Mein Gham Hai Aur Main Barish Se Darta Hon
ستم سہتے ہوئے ہر دن نئی خواہش سے ڈرتا ہوں
مری آنکھوں میں غم ہے اور میں بارش سے ڈرتا ہوں
مری پاکیزگی نے ہی بنایا ہے مجھے منصف
سو میں انصاف کرتے وقت ہر لغزش سے ڈرتا ہوں
دلوں کی وسعتوں کو بانٹ ہی سکتی نہیں دنیا
میں قسطوں میں بنٹا ہوں اور پیمائش سے ڈرتا ہوں
جلاتا ہوں محبت کے دیئے نفرت کے آنگن میں
نظر رکھتا ہوں دشمن پر، ہر اک شورش سے ڈرتا ہوں
مری آوارگی مجھ کو کہیں رکنے نہیں دیتی
پرندہ ہوں، رہائش کی ہر اک خواہش سے ڈرتا ہوں
غزل میں جستجو رکھتا ہوں میں مفہوم تازہ کی
مرے ناقد، میں خود لفظوں کی آرائش سے ڈرتا ہوں
عجب احساس کی منزل پہ آ پہنچا ہوں اے راہیؔ
لگاتا ہوں دلوں میں آگ اور جنبش سے ڈرتا ہوں
راکیش راہیؔ
Comments
Post a Comment