شاعر خواجہ حافظ شیراز
بک دیوان ۓ حافظ صفحہ 229
انتخاب اجڑا دل
نہ مجھ غریب سا ہو کوئی مبتلاۓ فراق
تمام عمر میرے ساتھ تھی بلاۓ فراق
تمام عمر میرے ساتھ تھی بلاۓ فراق
غریب عاشق و بے دل فقیر و سرگرداں
اٹھاۓ محنت ایام و رنج ہاۓ فراق
اٹھاۓ محنت ایام و رنج ہاۓ فراق
فراق ہاتھ اگر آۓ خون کر ڈالوں
دلادوں آنکھوں سے جو کچھ ہو خوں بہاۓ فراق
دلادوں آنکھوں سے جو کچھ ہو خوں بہاۓ فراق
میں اس فراق کو ایسا فراق میں ڈالوں
کہ رؤیں خون کے آنسو ہی دیدہ ہاۓ فراق
کہ رؤیں خون کے آنسو ہی دیدہ ہاۓ فراق
فراق و ہجر کے غم سے مفر نہیں اک دم
عوض ہمارا لے یا رب تو دے سزاۓ فراق
عوض ہمارا لے یا رب تو دے سزاۓ فراق
کدھر کو جایۓ کیا کیجیے کس سے غم کہیے
کہاں سے داد ملے کون دے جزاۓ فراق
کہاں سے داد ملے کون دے جزاۓ فراق
فراق دیکھو یے غم دیکھو اور مجھے دیکھو
جنا تھا مجھ کو میری ماں نے کیا براۓ فراق
جنا تھا مجھ کو میری ماں نے کیا براۓ فراق
ہے عشق باغ تو حافظ ہے بلبل سحری
دن اور رات ہے اک خون فشاں نواۓ فراق
No comments:
Post a Comment