Dharrkanon Ka Hisaab Khatam Howa,Aik Musalsal Aitaab Khatam Howa (Shahnaz Shazi) شہناز شازی


نام: شہناز شازی
جائے پیدائش: پاکستان، سبی، بلوچستان
تاریخ پیدائش: 11 نومبر 1954
موجودہ رہائش: ممبئ 
شعری سفر: نویں جماعت میں پہلا شعر کہا تب سے 1980 تک مٹھی بھر کلام جمع ہو چکا تھا لیکن غم روزگار نے اتنی فرصت نہیں دی کہ کسی استاد تک رسائی ہوپاتی اس لئے عروض و بحر سے بھی نا آشنائی رہی۔ 1980 میں شادی ہو کر ممبئی آنا ہوا تو نامانوس ماحول اور ہجرت کے کرب نے اندر کی شاعرہ کو ایک طویل خاموشی پر مجبور کر دیا اور 25 سال تک ایک شعر نہیں کہا۔ 2007 میں کسی طرح اردو مرکز ممبئی سے وابستگی ہوئی تو سوئی ہوئی شاعرہ جاگ اٹھی اور ایک طویل عرصہ بعد قلم سے دوبارہ ناطہ جڑا۔ استاد اب بھی میسر نہیں ہو پائے، تاہم 2014 میں پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا جس کی ای بک بھی بنائی گئی۔ اس وقت کراچی سے100 منتخب اشعار کے نام سے ایک کتاب عنقریب شائع ہونے والی ہے اور دوسرا مجموعہء کلام  عذاب آگہی ممبئی میں اشاعت کے مراحل میں ہے۔
دھڑکنوں کا حساب ختم ہوا
ایک مسلسل عتاب ختم ہوا

اسکے ترکِ تعلقات کے ساتھ
اکی دیرینہ خواب ختم ہوا

جس میں مہر و وفا کے مضموں تھے
وہ پرانا نصاب ختم ہوا

پھر انا کے الجھ گئے دھاگے
پیار کا ایک باب ختم ہوا

تیرگی میں سکون ملنے لگا
روشنی کا عذاب ختم ہوا

بےدھڑک سامنے وہ آ ہی گئے
مجھ سے ان کا حجاب ختم ہوا

مہرباں ہو گئے وہ اب شازی
بے سبب اجتناب ختم ہوا

*************

بہت اچھا ہوا تھا ماں نے مری سکھلا دئیے تھے
اسم سارے مجھ کو بچپن میں
تمام آیاتِ قرآنی، وظیفے اور مناجاتیں
کہ جنکے ورد سے ساری بلائیں دور رہتی ہیں
حصار ان کا ہر آفت اور مصیبت سے بچاتا ہے
انہی کے حفظ سے ہوتی رہی مشکل کشائی اور مسیحائی
مگر جب سے وجود اسکا مجسم اجنبی بن کر
گریزاں ہو گیا مجھ سے عذابِ جانکنی بن کر
خیال آیا 
کہ شاید بس یہی اک اسم اعظم
 ماں مجھے سکھلا نہیں پائی
جسے پڑھنے سے اسکی سرد مہری سرد پڑ جائے
جو اسکے دل کا زنگی قفل کھولے اور وہ مجھ کو
فقط اک بار اذنِ باریابی دے
عذابِ نارسائی ختم کر دے
اور نویدِ شادمانی دے

*************

اپنی فطرت بدل گیا کیسے
سانپ شیشے پہ چل گیا کیسے

دھوپ میں غم کی جو نکھرتا تھا
آج سائے سے جل گیا کیسے

بکھرا بکھرا وجود تھا اسکا
ایک سانچے میں ڈھل گیا کیسے

میری ہمت پہ ہے عدو حیران
اتنی جلدی سنبھل گیا کیسے

تم محبت کو کھیل کہتے تھے
اب نظریہ بدل گیا کیسے

آندھیاں خود سوال کرتی ہیں
پھر دیا اس کا جل گیا کیسے

دل پہ پہرے تھے عقل کے شازی
تم سے مل کر مچل گیا کیسے

*************

زندگی کی راہوں میں
اس طرح بھی ہوتا ہے
چلتے چلتے چھاؤں میں
دھوپ بڑھنے لگتی ہے
راہ کی مسافت سے
پاؤں تھکنے لگتے ہیں
دور تک کہیں کوئی
سائباں نہیں ہوتا
حدت تمازت سے
تن جھلسنے لگتا ہے
دل فگار ہوتا ہے
زخم رسنے لگتے ہیں
درد بڑھنے لگتا ہے
زندگی کی راہوں میں
اس طرح بھی ہوتا ہے
دفعتاً کہیں سے اک
مہربان آتا ہے
شدت تمازت میں
ابر بن کے چھاتا ہے
دھوپ سے بچاتا ہے
راستے کی مشکل کو
سھل تر بناتا ہے
اسکی غمگساری سے
زخم بھرنے لگتے ہیں
زندگی کے صحرا میں
پھول کھلنے لگتے ہیں
زندگی کی راہوں میں
اس طرح بھی ہوتا ہے
مہرباں جو آیا تھا
ہاتھ وہ چھڑاتا ہے
لاکے اک دوراہے پر
وہ بھی چھوڑ جاتا ہے
وقت خوں رلاتا ہے
تب سمجھ میں آتا ہے
ساتھ چند لمحوں کا
کس قدر رلاتا ہے
دکھ کسی کو کھونے کا
عمر بھر ستاتا ہے
زندگی کی راہوں میں
اسطرح بھی ہوتا ہے
جب اکیلے آئے ہیں
اور اکیلے جانا ہے
اک سکون کی خاطر
کیوں کسی کا احساں لیں
ہر کوئی بیگانہ ہے
عارضی سہاروں سے
دوستی نہیں اچھی
دھوپ چھاؤں کی شازی
دلبری نہیں اچھی

*************

ہمیشہ درد کی شدت بحال رکھتا ہے
وہ دل دکھانے میں ایسا کمال رکھتا ہے

شگفتگی کبھی ضرب المثال تھی اب تو
تمھارے ہجر کا موسم نڈھال رکھتا ہے

اگرچہ اپنی زباں سے وہ کچھ نہیں کہتا
مگر نگاہ میں کتنے سوال رکھتا ہے

جو ہمسفر ہوں تو ہر بات مشترک ٹھہری
شریکِ لطف شریکِ ملال رکھتا ہے

تمھارے قرب کا احساس ہی تو ہے جاناں
جو مشکلات میں مجھ کو سنبھال رکھتا ہے

جدائیوں کی تپش میں مدام کیوں نہ جلے
انا کی آگ جو سینے میں پال رکھتا ہے

خودی کا پاس کروں یا تمھارے پاس آؤں
دلوں کا فیصلہ الجھن میں ڈال رکھتا ہے

حد کمال کو منزل گماں نہ کر شازی
کمال خود بھی تو خوفِ زوال رکھتا ہے

*************

شہناز شازی
 

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo