December Chal Pada Ghar Se Suna Hai Pahonchnay Wala Hai
دسمبر چل پڑا گهر سے سنا ہے پہنچنے کو ہے مگر اس بار کچھ یوں ہے کہ میں ملنا نہیں چاہتا ستمگر سے میرا مطلب، دسمبر سے کبهی آزردہ کرتا تها مجهے جاتا دسمبر بهی مگر اب کے برس ہمدم بہت ہی خوف آتا ہے مجهے آتے دسمبر سے ستمگر سے دسمبر جو کبهی مجهکو بہت محبوب لگتا تها وہی سفاک لگتا ہے بہت بیباک لگتا ہے ہاں اس سنگدل مہینے سے مجهے اب کے نہیں ملنا قسم اسکی... نہیں ملنا مگر سنتا ہوں یہ بهی میں کہ اس ظالم مہینے کو کوئی بهی روک نہ پایا نہ آنے سے، نہ جانے سے صدائیں یہ نہیں سنتا وفائیں یہ نہیں کرتا یہ کرتا ہے فقط اتنا سزائیں سونپ جاتا ہے